ایک جائزہ
پاکستان خصوصاً پنجاب میں کسان ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہی کسان آج سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔ گندم کے کم ریٹ، مہنگی کھاد، مہنگے بیج اور موسمیاتی اثرات نے کسانوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ حکومت کی زراعتی پالیسیوں میں بھی کئی خامیاں نظر آتی ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کسانوں کے بنیادی مسائل
1. پیداوار کی کم قیمت:
کسان اپنی فصل بڑی محنت اور مہینوں کی محنت سے تیار کرتا ہے، مگر جب گندم یا دوسری فصلوں کا ریٹ مقرر ہوتا ہے تو وہ اس کی لاگت سے بھی کم ہوتا ہے۔ اس وقت پنجاب میں گندم کے ریٹ پر شدید احتجاج جاری ہے۔2. مہنگی کھاد اور بیج:
کھادوں، بیجوں، زرعی ادویات اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، جبکہ فصل کی قیمت وہیں کی وہیں ہے۔ یہ فرق کسان کی کمر توڑ دیتا ہے۔3. پانی کی قلت:
نہری نظام کی خرابی اور بارشوں کی کمی کی وجہ سے کسانوں کو شدید پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ ٹیوب ویل کا خرچ الگ سے ایک بوجھ ہے۔4. قرضوں کا بوجھ:
کسان بینکوں یا پرائیویٹ اداروں سے بھاری سود پر قرضے لیتے ہیں، اور جب فصل کا ریٹ کم ہوتا ہے تو وہ قرضہ چکانا مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجہ: غربت، نفسیاتی دباؤ اور خودکشیاں۔5. موسمیاتی تبدیلی:
غیر متوقع بارشیں، ژالہ باری اور شدید گرمی کی لہریں فصلوں کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں، اور کسان کے لیے ہر سال کاشت کاری جوئے شیر لانے کے مترادف بنتی جا رہی ہے۔حکومت کی زراعتی پالیسیوں کی کمزوریاں
-
کسانوں کو سستے ریٹ پر کھاد اور بیج فراہم کرنے میں ناکامی
-
فصلوں کے لیے سپورٹ پرائس کا بر وقت اعلان نہ ہونا
-
نہری پانی کی منصفانہ تقسیم میں بدانتظامی
-
جدید ٹیکنالوجی اور تربیت کے مواقع کی کمی
-
کسان کی یونینز اور احتجاجی آوازوں کو نظرانداز کرنا
حل کیا ہو سکتا ہے؟
-
حکومت کو چاہیے کہ وہ فصل کی سپورٹ پرائس وقت پر اور کسان کی لاگت کے مطابق طے کرے۔
-
کھاد اور بیج پر سبسڈی دی جائے تاکہ پیداوار کی لاگت کم ہو۔
-
نہری نظام کو بہتر بنایا جائے اور پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
-
زرعی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کو کسانوں تک آسانی سے پہنچایا جائے۔
-
کسانوں کی تنظیموں کو بااختیار بنایا جائے تاکہ ان کی آواز پالیسی سازی میں شامل ہو۔