بیت المقدس، جو دنیا کے قدیم ترین اور مقدس ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے، اسلامی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ کے دور میں اس شہر کی فتح ایک بے مثال واقعہ تھی، جو عدل، حکمت، اور روحانی بلندی کا مظہر ہے۔
بیت المقدس کی اہمیت
یہ شہر تین بڑے مذاہب—اسلام، مسیحیت، اور یہودیت—کا مرکز ہے۔ مسلمان اسے اسراء و معراج کے حوالے سے مقدس مانتے ہیں، جہاں نبی اکرم ﷺ نے معراج کی رات نماز ادا کی۔
فتح کی راہ میں مذاکرات
جب حضرت عمر بن خطابؓ خلیفہ بنے، اسلامی فتوحات عروج پر تھیں۔ بیت المقدس کی فتح طاقت کے بجائے مذاکرات سے ہوئی۔ جب مسلمانوں نے شہر کا محاصرہ کیا، وہاں کے عیسائی حکمرانوں نے مزاحمت کی بجائے یہ شرط رکھی کہ وہ خود حضرت عمرؓ کو دیکھ کر ہی شہر حوالے کریں گے۔
حضرت عمرؓ کی سادگی اور عدل
یہاں تاریخ کا حیرت انگیز واقعہ پیش آیا۔ حضرت عمرؓ ایک عام لباس میں، ایک اونٹ پر سفر کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچے۔ وہ خود کو بادشاہوں کی طرح پیش کرنے کے بجائے ایک عام، سادہ، اور انصاف پسند حاکم کے طور پر وہاں پہنچے۔ جب شہر کے عیسائی رہنما نے انہیں دیکھا تو وہ حضرت عمرؓ کی سادگی اور عدل سے بہت متاثر ہوا۔
صلح کا معاہدہ
حضرت عمرؓ نے عیسائیوں کے ساتھ ایک امن معاہدہ کیا، جس میں انہیں مذہبی آزادی دی گئی اور ان کے عبادت گاہوں کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا۔ یہ اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے، جہاں ایک فاتح نے طاقت کے بجائے انصاف، رواداری اور امن کو ترجیح دی۔
مسجدِ اقصیٰ کی بحالی
جب حضرت عمرؓ بیت المقدس میں داخل ہوئے تو وہاں موجود یہودیوں نے انہیں ایک مقام دکھایا جہاں حضرت سلیمانؑ کی عبادت گاہ تھی، مگر وہ جگہ ملبے سے بھری ہوئی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کرایا اور وہاں مسجدِ اقصیٰ کی بنیاد رکھی، جو آج بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقدس ہے۔
نتیجہ
بیت المقدس کی فتح صرف ایک فوجی مہم نہیں تھی، بلکہ یہ اسلام کی تعلیمات پر مبنی ایک مثال تھی، جس میں رواداری، انصاف، اور حکمت کا عملی مظاہرہ ہوا۔ آج بھی تاریخ اس واقعے کو یاد کرتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے بغیر خون بہائے ایک مقدس شہر کو اسلامی تہذیب کا حصہ بنایا اور وہاں کے باشندوں کو امن اور مذہبی آزادی فراہم کی۔