حالیہ دنوں میں مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست حملوں کا تبادلہ ہوا۔ اس صورتحال نے نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش پیدا کی ہے۔
تنازع کی حالیہ صورتحال
جون 2025 میں ایران نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، جن کے جواب میں اسرائیل نے ایران کے جوہری اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں دونوں جانب جانی و مالی نقصان کی اطلاعات سامنے آئیں۔
تاریخی پس منظر
ایران اور اسرائیل کے تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ رہے ہیں۔ 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں، اور متعدد علاقائی تنازعات میں دونوں فریق ایک دوسرے کے مخالف کیمپ میں رہے ہیں۔
عالمی ردعمل
اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی طاقتوں نے فریقین سے تحمل اور مذاکرات پر زور دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ کشیدگی طول پکڑتی ہے تو اس کے اثرات عالمی معیشت، خاص طور پر تیل کی قیمتوں پر بھی پڑ سکتے ہیں۔
مستقبل کی ممکنہ سمت
تجزیہ کاروں کے مطابق تین ممکنہ راستے سامنے آ سکتے ہیں:
سفارتی مداخلت کے ذریعے کشیدگی میں کمی۔
علاقائی جنگ کا خطرہ، اگر فریقین پیچھے نہ ہٹے۔
غیر روایتی جنگ جیسے سائبر حملے یا پراکسی گروپس کے ذریعے کارروائیاں۔
نتیجہ
یہ تنازع ایک حساس اور پیچیدہ مسئلہ ہے جسے صرف طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ سفارت کاری، بین الاقوامی تعاون اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے حل کیا جا سکتا ہے۔
ایران کا ردعمل: آپریشن وعدۂ صادق 3
اس حملے کے جواب میں، ایران نے 15 جون کو اسرائیل پر جوابی کارروائی کی، جس میں 150 سے زائد بیلسٹک میزائل اور 100 سے زیادہ ڈرونز استعمال کیے گئے۔ یہ کارروائی "آپریشن وعدۂ صادق 3" کے نام سے کی گئی، جسے ایرانی قیادت نے دفاعی قدم قرار دیا۔
معلوماتی توازن اور ذرائع
غیر جانب دار عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے پہل کی، جبکہ ایران نے ردعمل دیا۔ تاہم، دونوں ممالک کے سرکاری بیانات میں فرق پایا جاتا ہے، اور صورتحال کی مکمل اور درست تصویر صرف بین الاقوامی تحقیق اور مبصرین کی رپورٹس سے ہی ممکن ہے۔