دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں لوگ سانپ کے ڈسے کا شکار ہوتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ہر سال تقریباً 81,000 سے 138,000 افراد سانپ کے زہر سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ اینٹی وینمز اکثر صرف مخصوص سانپوں کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو مختلف نسل کے سانپ نے کاٹا ہو، تو فوری طور پر صحیح اینٹی وینم ملنا مشکل ہو سکتا ہے۔
اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک انوکھا اور حیران کن تجربہ سامنے آیا—ایسے افراد جنہیں سینکڑوں بار سانپوں نے کاٹا، ان کے خون نے سائنس کو نئی راہ دکھائی ہے۔
ٹِم فریڈے: جدید دور کا سانپوں کا تجربہ کار
امریکہ کے ٹِم فریڈے نے پچھلے بیس برسوں میں جان بوجھ کر 200 سے زائد بار خود کو زہریلے سانپوں سے ڈسوانے کا تجربہ کیا۔ ان کا مقصد اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ایسی قوتِ مدافعت پیدا کرنا تھا جو سائنس کے کام آ سکے۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ٹِم فریڈے کے خون میں ایسے اینٹی باڈیز پیدا ہو گئے ہیں جو مختلف اقسام کے سانپوں کے زہر کو بے اثر کر سکتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ان کے خون سے حاصل شدہ مادّوں کو لیب میں جانوروں پر آزمایا اور مثبت نتائج دیکھے۔ اگر یہ تحقیق کامیابی سے آگے بڑھی تو مستقبل میں ایک ایسا یونیورسل اینٹی وینم بن سکتا ہے جو دنیا بھر میں سانپ کے ڈسے کا علاج بن جائے۔
بِل ہاسٹ: “سنیک مین” کی تاریخی مثال
یہ کہانی صرف جدید سائنس تک محدود نہیں۔ ماضی میں ایک اور شخصیت نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر دنیا کو حیران کیا۔ فلوریڈا کے مشہور “سنیک مین” بِل ہاسٹ کو زندگی میں 170 سے زائد مرتبہ سانپوں نے کاٹا۔ انہوں نے برسوں تک معمولی مقدار میں سانپ کا زہر اپنے جسم میں داخل کر کے مدافعتی نظام مضبوط کیا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بِل ہاسٹ کا خون کئی مواقع پر سانپ کے ڈسے مریضوں کو لگایا گیا، جس سے ان کی جان بچی۔ تاریخ کے مطابق انہوں نے دنیا بھر میں 20 سے زائد افراد کی زندگیاں اپنے خون سے بچانے میں مدد کی۔
یونیورسل اینٹی وینم کیوں ضروری ہے؟
-
موجودہ اینٹی وینمز علاقائی اور نسلی فرق کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔
-
دیہی یا دور دراز علاقوں میں اکثر صحیح اینٹی وینم دستیاب نہیں ہوتا۔
-
ہر سال ہزاروں اموات صرف بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے ہو جاتی ہیں۔
یونیورسل اینٹی وینم کی ایجاد سے:
-
ایک ہی دوا مختلف سانپوں کے زہر پر مؤثر ہو سکتی ہے۔
-
علاج کا عمل تیز اور آسان ہو جائے گا۔
-
دنیا بھر میں اموات کی شرح میں نمایاں کمی آئے گی۔
احتیاط اور حقیقت
یہ سچ ہے کہ ٹِم فریڈے اور بِل ہاسٹ جیسے لوگوں کی قربانیوں نے سائنس کو نئی راہ دکھائی ہے، مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ انتہائی خطرناک ہے۔ کسی بھی عام شخص کے لیے ایسا تجربہ زندگی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ موجودہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور انسانوں پر مکمل آزمائش باقی ہے۔
نتیجہ
200 بار سانپ کے ڈسے انسان کا خون ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ کبھی کبھار خطرہ مول لینے والے افراد کی قربانیاں ہزاروں انسانوں کے لیے زندگی کی ضمانت بن جاتی ہیں۔ ٹِم فریڈے کی جاری تحقیق اور بِل ہاسٹ کی تاریخی مثال نے دنیا بھر کے ماہرین کو ایک ایسے یونیورسل اینٹی وینم کی تلاش پر لگا دیا ہے جو مستقبل میں لاکھوں زندگیاں بچا سکتا ہے۔